٭بسم اللہ الرحمن الرحیم٭
السلام علیکم
پردیسی آنگن!
انسان کا خمیر چونکہ زمین سے لیا گیا ھے اس لیے روئے زمین کا کوئی حصہ نا تو اس کی پہنچ سے دور ھے اور نا ھی جغرافیائی لحاظ سے ھمیشہ کے لیے ایک ھی جگہ پہ رہنا مقصود ھے۔ تاہم وہ خطہ ارضی جہاں کسی کی پیدائش ہوتی ہے اس سے انسیت ہونا ایک فطری عمل ہے۔ بیشک انسان کو مختلف وجوہات کی بناء پہ ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنا حضرت انسان کی جبلت میں شامل ہونے کے علاوہ وقت کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اور تاریخ بھی اس تلخ حقیقت کی شاھد ھے۔ وہ وجوہات جو انسان کی ہجرت کا باعث بنتے رہے ہیں درج ذہل ہیں۔
(1) رزق کی تلاش۔
(2) علم کی تلاش۔
(3) تجارت کی غرض۔
(4) اللہ رب العزت کے دین کی تبلیغ ۔
(5) اللہ رب العزت کے دین کی خاطر جہاد۔
(6) اولاد کی تعلیم اور تربیت کاجزبہ۔
(7) ظالم کے ظلم کا ڈر۔
(8) سماجی مسا ئل۔
(9) بین الاقوامی سازشی منصوبہ بندی۔
روئےزمین کو مختلف حوالوں سےتقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر خطے کی اپنی پہچان اور اہمیت ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر خطہ ایک جیسی پیداوار دے۔ ایک کرہ ارضی میں فصلیں دوسرے خطے سے مختلف ہو تی ہیں۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں مختلف پھل پیدا ھو تے ہیں۔ قرتی وسائل کے اعتبار سے مختلف معدنیات ہر جگہ سے نہیں نکالی جاسکتیں۔ قررت کی اس تقسیم کے با وجود انسانیت کی چند بںیادی ضروریات کسی حد تک ایک جیسی
ہی ہیں۔ ان ضرویات کو پورا کرنے کی غرض سے پردیسی مسافریت وقت کا تقاضا بن جاتی ہے۔
حضرت انسان کی بنیادی ضروریات میں لباس، خوراک اور رہائش (گھر) ہیں۔ ان کے حصول کی خاطر بچوں، والدین اور اپنے آبائی گاوں کو وقتی یا مستقل طور پر خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ بڑے بہادر اور خوش نصیب اس لحاظ سے ہوتے ہیں وہ لوگ جو وقت پر اپنے اور بچوں کے سنہرے مستقبل کے لیے یہ کٹھن سفر اختیار کرتے ہیں۔ اور سب سے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو نظام دین یعنی اصول فطرت کے نفاز کی خاطر یہ رخت سفر باندھتے
ہیں۔
اسباب کے اس جہان میں محنت اور سلیقہ شعاری، زندگی کو خوشحال بنا کر پر سکون کر دیتی ہے جسے ہم کامیاب زندگی کہ سکتے ہیں۔ کیونکہ کامیابی کو مختلف شعبوں اور پہلوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
انسان کو خالق کائنات نے شعور کی اعلی اوصاف عطا کر کے پیدا فرمایا۔ صرف یہی نہہں بلکہ اپنا خلیفہ بنا کر روئے زمین پر بھیجا۔ مقصد زندگی اور منصب خلافت کو پہچاننے کےلیےعلم کی پیاس نے انسان کو مختلف مدارس، صوفیاء، صلحاء ،سکول، کالج، یونیورسٹی میں جانا پڑا۔ خوش قسمتی سے علم و حکمت کے یہ چراغ اگر ایک جگہ سب میسر ہو بھی جائیں تب بھی یہ تشنگان علم مزید طلب سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں۔ مقصد کا اخلاص سفر کی مشکلات کو اور بھی آسان بنا دیتا ہے۔ زمانہ جدید میں سفر اتنا مشکل نہی رہا۔تاہم پھر بھی سفر اپنا معیار رکھتا ہے۔ مقصد کا حصول بھی اپنی پہچان کراتا ھے۔ طلبہ و طالبات کے لیے چا ہے اپنے ملک میں ہوں یا دیار غیر میں یہ سفر قدرے آسان ھوتا ھے کیونکہ سارے انتظامات والدین کو کرنے پڑتے ہیں۔ پھر بھی والدین، بہن بھائیوں اور سب اقارب سے دوری صرف علم کی طلب ھے جو خوشی خوشی سب برداشت کرا لیتی ھے۔ اللہ رب العزت ھمیں علم کی معرفت سے مقصد زندگی کی سمجھ عطا کرکےدین و دنیا کی بھلائی عطا فرمائے امین۔
زندگی کی پہلی ضرورت خوراک ہے۔ اس میں سانس کے لیے آکسیجن، پیاس کے لیے پانی اور بھوک کے لیے کھانا ضروری ھے، اس کے بغیر زندگی کا قائم رہنا مشکل ھے۔ لہزا حضرت انسان کو زندہ رہنے کے لیے ان بنیادی چیزوں نے پردیسی آنگن میں پناہ لینے پہ مجبور کیا۔ وقت کی نزاکت کے پیش نظر بچوں سے قربت
بھی انسان کو اس سفر سے نہ روک سکی۔ سب کچھ حاصل کرنے کے باوجودآہستہ آہستہ سفرکے مقاصد بڑھتے گئے۔ جس کی وجہ سے پردیس کا سفر طویل اور مشکل ہوتا گیا۔ جس کے براہ ہراست منفی اثرات اس کی شخصیت پر چھا گئے۔ اس کے علاؤہ صحت پر مسائل کے اثرات نے انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مزید براں پردیس کے مسائل (صحت، تحفظ ،اجرت، آزادی، سفارتی معاملات) دیگر سب معاملات سے نبردآزما ھونے سے ان کی شخصیت میں زندگی کے مسائل کو سلیقے سے نمٹانے کا فن ضرور ملا۔ لیکن مسائل کی ستم ظریفی اپنا آپ دکھاتی ھے تاکہ سفر کا سفر ہونا سفر نہ ھو۔
انسان کی ہجرت کا ایک اور اہم عنصر تجارت ھے۔یہ انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کی سیر کرانے کے علاؤہ وہاں کی تہزیب و ثقافت اود کاروباری معاملات کو جاننے میں مدد کرتی ہے۔ ساتھ ہی اس ملک کی کمزوریوں کو جان کر فائدہ اٹھایا جاتا ھے یہاں تک کہ قبضہ بھی کیا گیا ھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز تجارت کی غرض سے آئے تھے۔ رفتہ رفتہ یہاں اپنا کاروبار چلایا، پھر قابض ھو گئے۔
خالق مطلق نے انسانیت کی رہنمائی اور صراط مستقیم دکھانے کے لیے اپنی حکمت سے رسول اور نبی مبعوث فرمائے۔ جبکہ سلسلہ نبوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی تشریف آوری پر مکمل ھوا۔ اب قیامت تک کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ لیکن انسانیت کی رہنمائی کے لیے یہ زمہ داری امت کے علماء کرام کے سپرد کی گئی۔ اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے علماء کرام، صوفیاء ہجرت کرتے تھے۔ اور انسانیت کی خدمت کرتے رہے ہیں اور اللہ رب العزت کے کرم سے تبلیغ دین کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ھے۔ اور انشاء اللہ ھمیشہ قائم رھے گا۔ یہ چنیدہ بزرگان دین نے اپنے حسن سلوک اور رواداری سے لوگوں کے دلوں کو اللہ رب العزت کی رحمت سے روشن کرتے رہے ہیں۔
نظام دین فطرت کے نفاذ کے لیے جہاد کو دین کا رکن قرار دیا گیا ہے۔ تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ جہاد بھی اسلام کے نفاز کے عملی اقدام کرتا دہا ہے۔ جہاں بھی دین اسلام کی سر بلندی کے لیے ضرورت پڑی مجاھدین ملت اسلام ،اللہ رب العزت کی رضاء کے لیے میدان جہاد پہنچے۔ اسلام کی تاریخ اس سچائی کی گواہ ہے۔ اسلام کی ابتداء سے اج تک ان گنت لازوال داستانیں آج بھی کفر کے رونگٹھے کٹھرے کر دیتی ہیں۔ صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے کی جانیوالی ہجرت کی مثال نہیں کیونکہ مجاھدین کامیابی کے بعد عوام الناس کے دلوں کو اپنے کردار سے جیتا۔ وہ آج بھی ہمارے لیے چراغ منزل ہیں۔ ان کے نقش قدم پہ چل کے ہم مسلمان اپنی شان و شوکت حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں دین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے۔امین
حقیقت میں والدین کا اصلی اثاثہ ان کی اولاد ھے۔ اولاد کی صحیح تربیت سے انسان زندگی کا مقصد اور بندگی کا حق ادا کر سکتا ھے۔ کیونکہ بچوں کی تربیت ایک حساس اور اہم ترین فریضہ ھے جس کی صحیح ادائیگی تعلیم سے مشروط ھے۔ تعلیم کے زیور سے آراستہ انسان (مطلب عقل و شعور اور فہم و فراست) ھی اولاد کی تربیت کر سکتے ہیں۔ وگرنہ خوراک اور رھائش یعنی تحفظ پرندے اور جانور بھی اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ تو پھر انسان اور حیوان میں کیا فرق رہے گا۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ جیسا بھی ہو اپنی اولاد کی تعلیم اور بہترین تربیت کر سکے۔ بعض اوقات اپنا گاوں، شہر یا ملک چھوڑنا پڑ سکتا ھے۔ اگرچہ اپنے آبائی گاوں یا شہر سے انسان کو پیار ھوتاھے۔ تاہم نامساد حالات میں اگر اولاد کی تعلیم اور تربیت کی غرض سے ہجرت کرنا پڑتی ہے جسے والدین خوشی خوشی قبول کر لیتے ھیں۔ اس سے اولاد سے محبت اور والدین کی ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ھے۔ نیک اور صالح اولاد ایک صدقہ جاریہ ھے۔ تربیت کا اعلی ترین معیار انسان میں خالق مطلق کی بندگی کا احساس پیدا کرنا ھے۔ اللہ رب العرت ہمیں اچھا انسان اورسچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین۔
انسان سکون کا متلاشی ھے۔ اور اسلام دین فطرت ایک مسلم سلطنت میں مسلمان تو کیا غیر مسلم کے تحفظ، سکون اور مزہبی آ زادی کی ضمانت دیتا ھے۔ یہ صرف اس وقت ممکن ھے جب سماج یا ریاست میں انصاف کی بالادستی ھو جس سے ناصرف معاشرہ پر سکون ھوتا ھے بلکہ اس میں ریاست کی بقاء بھی ھے۔ جب حالات بگڑجائیں اور سماج میں، "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا قانون ہو تو تو معاشرے میں سیدھے سادھے، غریب اور بےبس انسان کے پاس اپنے آبائی علاقے سے ہجرت ضرورت بن جاتی ھے۔ بڑے باہمت اور غیور لوگ ہی اپنی ذات کی بقاء کے لیے پر سکون شہر کی طرف ہجرت کر تے ھیں۔ تاکہ امن سے زندگی کی سانسیں لے سکیں۔
سماج کی اخلاقی اقدار کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہیں۔ جو علاقے کی خوشحالی اور ترقی کی ضامن ھوتی ھیں۔ جس معاشرے میں رزائل اخلاق کی مارا ماری ھو وہاں ایک شریف اور ایماندار بندہ کیسے رہ سکتا ھے۔ لہذا ایک تو بندہ اپنی زندگی میں امن کی تلاش میں ہجرت کرتا ہے۔ اتفاق سے ایسی جگہ جا تا ھے جہاں پہلے ھی اسے نو چنے والے بھیڑ ئیے اسے نو چنے کے لیے تیاد ہوتے ہیں۔ تو ! ایسے حالات میں دل برداشتہ نہ ہو ں اور ہمت سے کام لیں۔ اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کریں۔ حالات کی انکھوں میں انکھیں ڈالیں تو سہی پھر دیکھنا لہجے کی نرمی، الفاظ کی مٹھاس اور لوگوں کی ہمدردیاں آپ کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے نظر آ ئیں گی۔
کہتے ہیں ہر وہ غلطی جس کے بعد دوبارہ غلطی نہ، ہر وہ گناہ جس کے بعد گناہ نہ ھو اور ہر وہ ناکامی جس کےبعد کامیابی ہو اس لیے خوش آئند ھیں۔ وہ علظی جو ہمیشہ کے لیے اصلاح کا پیغام دے گئی۔ دوسری بات جب کس انسان (مرد یا عورت) کوئی غلطی کرتا ھے پا شیطانی بہکا وئے میں آکر غلطی کر بیٹھتا ہے تو سماج کے ہر انسان کا روپ جیسےدودھ کا دھلا ہوا ہے۔ گویا کہ زندگی میں اس سے کوئی غلطی سر ذد ھوئی ہی نہیں۔ کیسا دہرا معیار زندگی انسان نے اپنایا ھوا ھے۔ جس سے نہ صرف متاثرہ لوگ پریشان ھوتے ھیں بلکہ انکے خاندان کے سبھی لوگ تکلیف میں رہتے ہیں۔ کیا اس کا یہی حل ھے۔ بہتر ھو گا کہ بندے کی رہنمائی کی جائے۔ غلطی کا احساس دلا کر اسکی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرنے، اس کے سامنے جھکنے اور اپنے گناھوں کا اقرار کر کے معافی کا طلبگار ھو جائے۔ پروردگار کی رحمت ھمیشہ ہمارے شامل حال رھے۔امین۔
انسان میں فطری طور پر دوسرے انسان پر اپنے فیصلے مسلط کرنے، ان کے جزبات مجروح کرنے اور اس کی ملکیت پراپنا تسلط قائم رکھنےکی حوس زمانہ اول سے چلی آ رھی ھے۔ ایک فرد سے ایک قوم اور ایک قوم سے ایک سلطنت پر اپنا تسلط قائم کرنے اور یہاں تک کہ قبضےکی غرض سے اس کے خلاف سازشیں کی جاتی ھیں۔ بہت قابل، محنتی اور مستند لوگوں کو کسی ملک کے خلاف سازش کرنے کے لیے بھیجا جاتا ھے جوکہ بالکل غلط ھے۔ مزید براں اتنے قابل لوگوں کو مثبت کام میں لگا کر ملک و ملت کو بہتر کیا جا سکتا ھے۔ اور ملک کی خطیر رقم ضائع ہونے سے بچائی جاسکتی ھے۔ امن اور سکون سے قوموں اور ملکوں کی بقاء ھے۔ لہزا ھمیں چاھیے کہ انسانیت کے سکون کی خاطر ایک دوسرے سے امن اور رواداری سے زندگی گزاریں۔
مختلف نوعیت اور حالات میں پردیس میں رہنے والوں کی زندگی کے جائزے سے ھم یہ کہنے میں بجا ھیں کہ زندگی اتنی آسان نہیں ھے تو پھر ھمیں اپنی خواہشات اور تمنائیں رب العالمین کےاحکامات کے طابع کرناہوں گی تاکہ دنیا کے معاملات بھی آسان ھو جائیں اور دین ودنیا کی سب بھلائیاں بھی نصیب ہو سکیں۔امین.
ایم ع حسین
0 Comments