بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام علیکم!
قدرت انسانی جسم میں مقصد کو پانے کے لیے محنت کا عُنصر رکھا ہے۔یہ اسباب کا جہان ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے بہت سی اشیا ء کی ضرورت ہو تی ہے۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے محنت لازمی شرط ہے۔ محنت سے انسان اپنی ضروریات کے علاوہ انسانیت کی بھی خدمت کر سکتا ہے۔ کسی بھی گھر، قوم اور ملک کے تحفظ اور معیشت کے لیے نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہے۔ اس لیے وہ ئ سلطنت جو اپنی نوجوان نسل کی تعلیم، صحت، مہارت اور دیگر معاملات میں تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔وہ نسل اُس ملک کی ترقی اور بقا میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستا ن ایک زرعی ملک ہے۔ قدرت نے اسے بے شمار وسائل سے مالا مال کیا ہے۔بلند وبالا پہاڑ، سر سبز شاداب وادیاں، زرخیز میدان، وسیع ریگستان اور یہاں تک کہ سمندر کا بڑا حصہ ہماری سرحد سے منسلک ہے۔۔
پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے اپنے لہو کی قربانیاں دیں اب چاہیے تو یہ تھا کہ ان قربانیوں کا احساس کرتے اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانے بلکہ پاکستان کو خوشحال کرنے کیلیے ان وسائل کو ایمانداری سے استعمال کرتے۔ تاکہ اسلام کے نام پر دُنیا کے نقشے پر قائم ہونے والی ریاست ترقی کرتی۔ نابینا سے بینائی، بہرے سے سماعت اور گونگے سے بولنے کی اہمیت پوچھیں۔پاکستان کے قدرتی وسائل بھی انسانی اعضا ء کی طرح بہت اہم ہیں۔جس طرح حواسِ خمسہ کا درست ہونا صحت کے لازمی ہے اسی طرح قدرتی وسائل کا استعمال ملک کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔آزادی کی نعمت کا حق اپنے اسلاف کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے مملکت خداداد کے لیے گراں قدر خدمات سے ادا کیا جا سکتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ حق ادا کون کرے
ہم سب تو دوسروں کے کندھوں پر سوار ہونے والے ہیں۔ ڈیوٹی کرنے کو دل نہیں کرتا، ذمہ داری قبول نہیں کرتے، محنت سے جان جاتی ہے، اقتدار، عہدہ، اختیارات، مراعات، سب چاہتے ہیں لیکن ایمانداری سے اپنا فریضہ ادا کرکے رزقِ حلال کا تقاضا پورا نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر کرپشن، بد اعنوانی اور غداری کیا ہوسکتی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے زبانیں بند کیے ہوئے ہیں۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نوجوان نسل بلخصوص طلبہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔اب یہ ذمہ داری طلبہ پر ہے کہ وہ جاگیں اور ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں کیونکہ اس وطنِ عزیز کو اپنوں کی ممفادپرستی، ناہلی اور طاغوتی سازشوں نے کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔آپ قدم بڑھائیں انشااللہ رب کی مدد و نصرت آپکے شاملِ حال ہو گی۔
پاکستان تاریخ کے انتہائی نازک مرحلے سے گزرہا ہے۔ کسی بھی ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے انصاف، تعلیم، صحت، سکیورٹی، درآمدات، برآمدات، ذرائع مواصلات، داخلہ اور خارجہ پالیسیا ں اہم کردار ادا کرتی ہیں جس سے ملک کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔وہ کشتی جو قائداعظم محمد علی جناحؒ طوفان سے لائے تھے اب ڈگمگا رہی ہے۔اے جوانو!کیوں ڈرے ہوئے ہو، سہم گئے ہو۔کفر کی یلغار سے بکھر گئے ہو، نااُمید ہو چکے ہو آخر کیوں؟ جب مسلمان اللہ رب العزت کے وحد ہ لا شریک ہونے کی گواہی دیتا ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو سب نااُمیدیاں اور مایوسیاں ختم ہو جاتیں ہیں کیونکہ کارساز تو خالق مطلق ہے۔اپنے آپ کو پہچانو! قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو استعمال کرو اور اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرو۔آپ بہت ذہین، سلیقہ شعار اور محنتی ہیں۔ضرورت ان نعمتوں کو استعمال کرنے کی ہے۔جب ارادے کی پختگی اور محنت سے کام کرو گے تو انشااللہ کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔
بقول علامہ محمد اقبال
”اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے“
مزید براں علامہ نے مسلمانوں کی خوداری، اتحاد اور عزم کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہوجس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے گر تو، تو نہیں خطرہ اُفتاد
بیشک وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں لوگ جدید سہولیات ِ زندگی سے دور رہے۔وسائل کے نا ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی معیار کی تعلیم اور ٹیکنالوجی سے محروم رہے۔آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔آپکے پاس جو وسائل ہیں اُن کو اس یقین سے استعمال کرنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری وراثت ہے۔اور ہم ہی اس کے وارث ہیں۔
اپنی تخلیقی سوچ سے ایسے کام کر جائیں جو پاکستان کے علاوہ پوری انسانیت کے لیے فلاح کا بعث ہوں اور پاکستان کا نام دُنیا میں روشن کریں۔اللہ تعالیٰ کی ذات اور اپنی محنت پر یقین رکھیں اپنے مفادات پر ہر گز سمجھوتہ نہ کریں۔کیوں: بقول علامہ محمد اقبالؒ
دیار ِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح شام پیداکر
میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
یقین کامل ہونے سے انسان پر اللہ رب العزت کی نوازشات اس قدر برستی ہیں جن کا وہ گُمان بھی نہیں کر سکتا۔تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کی خوداری سے اپنی آزادی اور مفادات کو ہر صورت مقدم رکھا جائے۔مولاعلی ؓ کا فرمان ہے ؒ: ”اپنے آپ کو بدل لو قسمت خود ہی بدل جائے گی“ اب بدلنے کا مطلب صرف لباس تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی سوچ، نظریہ اور منزل بدلنی ہے۔جب آپ کی منزل اللہ کے دین کی سر بلندی اور اپنے اسلاف کی عظمت کو حاصل کرنا مقصود ہو تو پھر انسان ہر صور ت اُسے حاصل کر لیتا ہے۔اس بات کی گواہی قرآن پاک میں موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے اپنی حالت کے بدلنے کا خیال تک نہ ہو۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قسمت کی کشتی اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔چاہوتو عزت، وقار اور شان وشوکت سے دُنیا میں رہو۔چاہو تو ذلت کی پستیوں میں عمر گزارو۔یہ مت بھولنا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے “ (ٹیپو سلطان)۔ہماری تاریخ میں درخشاں ستارے صلاح الدین ایوبی ؒ، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد دیگر نامور جرنیلوں کے تاریخی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ہمیں اپنی سلامتی کے لیے تاریخ دُھرانا ہے۔
کاشانہ نبوتﷺ سے فیض یاب ہونے والے صدیق اکبرؓکی صداقت، عمرِفاروق ؓ کی عدالت، عثمان غنی ؓ کی سخاوت وحیاء اور مولا علی ؓ کی شجاعت جیسے اوصاف کو اپناؤ۔اور دُنیا کی امامت کرو۔بقول علامہ محمد اقبال
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
میرے نو نہال وطن امامت کا منصب سنبھالو! اپنی عُقابی روح کو بیدار کرو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے اس کے دین کی سر بلندی اور حضرت محمدﷺ کی سُنت کو زندہ کرنے کے لیے نبی ﷺ کا پرچم جو امن کا پرچم ہے لے کر نکلو۔پاکستان کو ناقابل تسخیر بناتے ہوئے دُنیا میں چھا جاؤ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔آمین
0 Comments