A True Young Muslim | Brave True Young Muslim

 

٭بسم اللہ الرحمن الرحیم٭

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ ”بے شک ہم نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا “ (القرآن)علم کی بدولت انسان کو اپنے منصب ِخلافت کے قابل بنایا۔علم کی تعلیم اور ترویج کا بہترین نظام قائم کیا۔انسان کی رہنمائی کے لئے مختلف ادوار میں اپنی حکمت کے تحت رہبر (رسول/نبی)مبعوث فرمائے جاتے رہے۔جو انہیں اللہ رب العزت کی وحدانیت کا درس دیتے،انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہے۔انسانیت کی رہنمائی کے سلسلے کی تکمیل نبی پاک ﷺ کی کامل واکمل ہستی کو بھیج کر کی گئی۔آپﷺ کے اعلانِ نبوت سے پہلے زمانہ آپﷺ کے کردار اور اعلیٰ اوصاف کا معترف ہو چکا تھا

نبوت کا اعلان بھی اقراء (پڑھ)یعنی تعلیم سے کیا گیاتاکہ انسان علم کی بدولت اللہ رب العزت کی معرفت حاصل کرسکے۔علم کی معرفت انسان فرشتوں سے افضل قرار پایا۔علم ایک نور ہے۔حسن ترتیب سے اپنی ذات کو پہچان کر اللہ رب العزت کی پہچان انسانیت کی معراج ہے۔

اللہ رب العزت باعمل صاحب ایمان بلخصوص سپہ سالارکو اپنی معرفت عطا فرماتا ہے۔اُس نور معرفت کی بدولت جہان دنیا میں علم کی شمع کا چراغ جلاتا ہے۔ دنیا میں حق اور کفر کا فرق بتاتاہے۔اچھے اور برے کی تمیز کراتا ہے۔رنگ اور نسل کی تفریق مٹاتا ہے۔انصاف کی بالادستی اور تہذیب کا اعلیٰ معیار قائم کراتا ہے۔اس صفت کو علامہ نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایاہے۔بقول علامہ اقبالؒ 

جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں 

اِدھرڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

ہماری تاریخ ایسے بے شمار کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ہمارے اسلاف نے اللہ رب العزت کے دین محمدیﷺ کی سربلندی کیلئے آپﷺ کی سیرت کے مطابق اسلام کے الم کو بلندکیے رکھا۔اس کی خاطر اپنی جانوں کی پرواہ بھی نہ کی۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ شہید ہوگئے تو ابدی زندگی مل جائے گی کیونکہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔شہید کا جو خون ہے وہ قوم کی زکوۃ ہے۔اگر زندہ رہے تو غازی ٹھہرے۔انہیں اللہ کی رحمت پر اس قدر یقین تھا۔ بقول علامہ اقبالؒ

خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو،زباں تو ہے

یقین پیدا کر  اے غافل کہ مغلوب ِ گماں تو ہے

A True Young Muslim | Brave True Young Muslim

عشق رب العزت میں سرفروش ایمان آپ ﷺ کی محفل میں علم سکھینے والے جب میدان جنگ میں اُترتے تو کفار کے پاؤں اُکھڑ جاتے تھے۔مجاہدانہ صلاحیت کے علاوہ انتظامی،  عدالتی،  معاشی،  سیاسی، سماجی،  اخلاقی،  تہذیبی،  کاروباری باقی دیگر تمام امور بدرجہ اُتم صلاحیتوں کے مالک تھے۔ان تمام عظیم شخصیتوں نے کاشانہِ نبوت ﷺ سے تربیت لی تھی اور اپنی فراصت سے تمام امور خوبصورت انداز میں انجام دئیے جو ہمارے لیے آج بھی چراغ منزل ہیں۔انہیں اپنی پہچان تھی اور اس حقیقت سے آشنا تھے۔اس راز کو علامہ ن اپنے مخصوص انداز میں بیان کیاہے۔بقول علامہ اقبالؒ 

تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا

خودی کا راز داں ہوجا خدا کا ترجماں ہو جا

 حقیقت یہ ہے کہ جب ایک مسلمان اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے احکام سیرت رسولﷺ کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔    تویہ عمل رب کی خوشنودی کاباعث بنتا ہے۔اس سے معاشرے میں امن وسکون قائم رہتا ہے۔ان لوگوں نے اپنی زندگیاں اللہ کے دین کے لیے وقف کردی تھیں۔ایمان والوں کے دلوں میں اللہ کے خوف کا میعار یہ تھا کہ

  ترجمہ   ”اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا“(القرآن)

اللہ کا خوف مسلمان کو رسولﷺ کے اور قریب کرتا ہے۔ قربت ِ رسولﷺ ایمان کی تکمیل کا ثبوت ہے۔ مسلمان کا ہر عمل خوا ہ بطور امام،  جج،  سپہ سالار،  والد،  شوہر،  ہر حیثیت سے اسوہ ِ کامل کو اپنا تا ہے حتیٰ کہ اٹھنا،  بیٹھنا،  سونا،  جاگنا،  کھانا،  پینا،  لباس اور دیگر معاملات زندگی ہر لحاظ سے ہر بات کو اپناتا ہے۔ اپنی خواہشات کو بھی حکمِ خداوندی کے مطابق کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ

 بقول علامہ اقبال ؒ

کی محمدﷺسے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں 


A True Young Muslim | Brave True Young Muslim