﷽
اللہ رب العزت کی نعمتوں کی قدر دراصل انسان کا اپنے مقصد تخلیق کو پہچاننا ہے ۔ خالقِ حقیقی کی نوازشات انسان پر جب عیاں ہوتی ہیں اور راز افشاں ہوتے ہیں تو نہ صرف اسے اشرف المخلوق ہونے پر فخر ہوتا ہے بلکہ اپنے پروردگار پر یقین بڑھتا بڑھتا کاملیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔اللہ رب العزت کا انسان پر سب سے بڑا احسان ایما ن کی نعمت ہے اور اس کا ادراک ،تو قیر اور عمل ِ صالحہ علم سے مشروط ہے ۔علم معرفتِ الہی کا چراغ ہے اس چراغ کی شمع سیرت ِ نبی ؐ ہے۔ جب انسان اِس اسوہ کامل کو اپنائے رکھتا ہے دین اور دُنیا دونوں میں کامیا ب رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنایا علم کی بدولت دراصل انسان میں اچھے، بُرے، حلال ، حرام،مخلص ، منافق فرض شناس ، غافل اور محبِ وطن قوم وملت کی تمیز کرنا ہے۔ یہ شعوری کیفیت ہے جو انسان میں اسے اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔شعورکی ایک حالت اپنے مخلص ، قوم وملت کی خدمت میں مصروف رہنے والوں کی عزت کرنا ہے کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہی ہیں ۔نعمت کی ناقدری محرومی نعمت کا باعث بنتی ہے ۔ باشعور لوگ ، قومیں اور ملک اپنی قوم کی فلاح کو ہر صورت مقدم رکھتے ہیں ۔جب انسان بد قسمتی سے لاشعوری طور پر اپنے فرائض سے غافل ہو جائے تو زندہ رہتے ہوئے نہ صرف مردہ ہوتا ہے بلکہ دُشمن کا آلہ کار بن جاتا ہے۔
کارل مارکس کے مطابق "لا شعور لوگ دُشمن کی فوج ہو تے ہیں۔"
اکثر پاکستا نیوں کوقوم کی بجائے لوگ کہنا اس لیے ناگریز ہو گیا ہے کہ لا شعوری طور پر طاغوتی قوتو ں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور اپنے ان عظیم شاہ سواروں کی تزلیل کر رہے ہیں جو ہمہ وقت قوم ،ملت کی خدمت اور ترقی کے لیے
بر سریپیکار رہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹرز، انجینیرز،پروفیسرز دُنیا کی بہترین یونیوریسٹیوں میں اپنی خدمات سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔اگر ان لوگوں کو سہولیا ت دی جاتیں اور عزت دی جاتی تو بجا طور پر پاکستا ن میں رہنا اور کام کرنا پسند کرتے۔
پاکستان ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ آزادی سے بڑھ کر کچھ نہیں مگر افسوس ہمیں اس کی قدر نہیں۔
زندہ قومیں کسی صورت میں اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرتیں ۔مگر ہمیں اس ضیا ع کا احساس ہی نہیں۔کسی ملک کےلیے صحت ،تعلیم ،انصاف،سکیورٹی ،تجارت،قومی اور بین الاقوامی خارجہ پالیسی ایسے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کسی ایک کا کمزور ہوناپوری عمارت کے لیے خطرہ ہوتاہے۔سب حالات کو جاننے کے باوجود تاریخ سے روگردانی کرتے ہوئےبیانِ حلفی کے خلاف کام کررہے ہیں۔ ہر محکمہ اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ کر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرتا رہتا ہے ۔
پاکستان میں عدلیہ کا نظام سوالیہ نشان ہے۔عدالت پر قوم کا اعتماد اُٹھ چکا ہے۔فیصلے انصاف پر بروقت نہیں ہوتے۔محکمہ تعلیم میں نصاب کا تعین قوم کی تشکیل اور منزل کا تعین کرتا ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں "آئی۔ایم۔ایف" کی ایماء پر سلیبس پڑھائے جاتے ہیں ۔
پاکستان آرگینائزیشن کی پالیسی میں بھی تبدیلیاں لانے کی کوششیش کی جا رہی ہیں ۔کم از کم ایک ایسا ادارہ جو ملک و ملت کی سالمیت کی ضمانت ہے ۔ اُسے بھی اپنے ہاتھوں سے کریدنے لگے ہیں اگر ہم یوں ہی خوابِ غفلت میں رہے اور یہی صورتِ حال جاری رہی تو کوئی ایمان دار محنتی اور قابل انسان پاکستان میں کام نہیں کرئے گا ۔کفر تو چاہتا ہی یہی ہے ۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیئے اور ان اداروں کے تقدس کو برقرار رکھیں۔ کارکنوں کو سہولیات دیں ۔ ملک کی بقاء
کےلیے ایک لالحہ عمل بنائیں تاکہ یہ عظیم سلطنت جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی دُنیا کے نقشے پر اسلام کا پرچم بلند کیئے رکھے۔ آمین
رائٹر: محمد عارف حسین
کمپوزر: ملک طاہر
0 Comments